تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی | ہندوتوا دہشت گردی کی اصطلاح پر تو بی جے پی اور آر ایس ایس کو سخت اعتراض رہا ہے، اسی بناپر انہوں نے کانگریس کے خلاف ہندوئوں کو مشتعل کرکے متحد کیا اور کہا کہ ہندوستان میں ہندوتوا دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، لیکن یرقانی اور زعفرانی تنظیموں نے جس طرح ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے ہیں اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملے گی۔
آیا ان مظالم کو دہشت گردی کے زُمرے میں رکھا جاسکتا ہے یانہیں ؟یہ بحث طلب موضوع ہے ۔کیونکہ دہشت گردی کی تعریف اور انطباقات میں بہت اختلاف ہے ۔اقوام متحدہ نے رواں سال میں دہشت گردی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی آبادی کو خوف زدہ کرنے یاکسی سرکار اور عالمی دارے کو کسی کام کے انجام دینے یا انجام دہی سے روکنے پر مجبور کرنے کے مقصد سے شہریوں یا ایسے افراد کو جو جنگ کا حصہ نہیں ہیں مارنا یا شدید جسمانی نقصان پہونچانا،دہشت گردی ہے ۔اگر اس تعریف پر دنیا متفق ہے تو پھر تمام حکومتیں اور ریاستیں اس تعریف کے تناظر میں اپنا احتساب کریں تومعلوم ہوگاکہ دنیا میں کہاں کہاں دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور کونسی حکومتیں دہشت گردوں کی حمایت کررہی ہیں ۔اس طرح ہندوستان میں ہونے والے متعدد واقعات کو بھی اس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔کیونکہ اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے جس طرح ہندوتوا تنظیمیں حکومت کی پشت پناہی سے تشدد کررہی ہیں اس کو اس تعریف کے دائرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔
دہشت گردی پر اقوام متحدہ کے اس نظریے کو دنیا کی تمام حکومتیں قبول کرتی ہوں یہ ضروری نہیں،کیونکہ ہر ملک اور ہر ریاست میں دہشت گردی کے کچھ خودساختہ اصول وضوابط ہیں۔بعض ریاستیں اپنے سیاسی اور ملکی مفاد کے پیش نظر دہشت گردی کی تعریف وضع کرتی ہیں ۔عالمی طاقتوں کے اصول وضوابط سب سے الگ ہیں ۔میڈیا بھی انہی اصولوں کی پیروی کرتاہے اور بے گناہوں کو بھی دہشت گرد کہنے سے باز نہیں آتا، یہ اندھی تقلید غزہ جنگ کے بعد زیادہ مشاہد ہ کی گئی ۔امریکی اور اسرائیلی میڈیا نے جسے دہشت گرد کہہ دیا دنیا کا ایک بڑا طبقہ اسی کو صحیح سمجھنے لگا۔حیرت یہ ہے کہ دنیا نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور جنایت سے بخوبی واقفیت کے باجود غزہ کے لوگوں کی حمایت کے بجائے اسرائیل کی دہشت گردی کو’ حقِ دفاع‘ کے نام پر جائز ٹھہرایا۔استعمار کی توسیع پسندانہ فکر نے مغربی ایشیا کو تباہی کے دہانے پر پہونچا دیا لیکن دنیا اس سے چشم پوشی کرتی رہی ۔پہلے عراق پربے بنیاد الزامات کے تحت حملہ کیاگیا اور پھر افغانستان اور شام کو برباد کر دیا گیا۔فی الوقت غزہ اور لبنان پر حملے جاری ہیں۔غزہ میں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے ۔اس کے باوجود جو لوگ اپنے وطن اور آزادی کے لئے لڑرہے ہیں میڈیا انہیں دہشت گرد کہہ رہا ہے ۔اور جو لوگ غاصبانہ قبضے کے باوجود غزہ اور لبنان پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں ان کی مظلومی کا نوحہ پڑھا جارہا ہے ۔یہ ہے دنیا کا دُہرا کردار جس کی بنیادپر دہشت گردی جنم لیتی ہے اور دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ہندوستان میں بھی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کا عمل جاری ہے ۔یہ کام ہندوتوا تنظیمیں سرکار کی حمایت اور پشت پناہی سے انجام دے رہی ہیں ۔کیونکہ جب سرکار کے وزرا اجتماعی پروگراموں میں ’دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو...‘‘ جیسے نعرے بلند کرتے ہیں تو سرکار کی نیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں ۔اب تک انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکار اور ہندوتوا تنظیموں کی منشا ایک ہے ۔دھرم سنسدوں میں جس طرح مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلی کی گئیں اور ہندوئوں سے اقلیتی طبقے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لئے کہاگیا اس کو بھی اسی دائرے میں رکھا جاسکتا ہے ۔بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دوکانداروں کونیم پلیٹ لگانے کا حکم دیا گیا تاکہ مسلمانوں کو اقتصادی ضرب دی جاسکے ۔اسی طرح ٹرینوں اور بسوں میں سفر کو غیر محفوظ بنادیا گیا تاکہ خوف و دہشت کی نئی فضا قائم ہوسکے ۔آیا اس صورتحال کو میڈیا اقوام متحدہ کی تعریف کے تناظر میں بیان کرنے کی جرأت کرپائے گا؟ ہرگز نہیں !کیونکہ اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کا عمل تو میڈیا نے بھی شروع کر رکھا ہے اس لئے وہ اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی تعریف کوکیسے قبول کرسکتا ہے ۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوتوا تنظیموں کے غنڈے سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں زدو کوب کرتے ہیں ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں گئوکشی کے فرضی الزامات کے تحت قتل کے جتنے واقعات رونما ہوئے آیا ان کو دہشت گردی کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے یانہیں ؟یہ ایک الگ بحث ہے ،جس کو ہندوستان میں شروع کرنا گویا قتل عام کے نئے باب وا کرنا ہے ۔کیا ہریانہ میں ناصر اور جنید کو زندہ نذر آتش کرنے کا واقعہ دہشت گردی نہیں کہلائے گا؟کیا اخلاق کا بہیمانہ قتل اس دائرے میں نہیں آتا؟عتیق احمد اور اشرف کو سر عام گولی مارنا کیا دہشت پھیلانے کی کوشش نہیں تھی؟کیا بی جے پی ریاستوں کے’ بلڈوزر کلچر‘ کو اس زمرے میں نہیں رکھا جائے گا؟اور اس طرح کے ہزاروں واقعات جو اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کیا انہیں ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ؟
بہرائچ میں جو کچھ ہواوہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔مذہبی جلوسوں کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگانا اور مسجدوں کے سامنے ہنگامہ آرائی کرکے اقلیتوں کو اُکسانا عام بات ہے ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کی جرأت نہیں رکھتی لیکن اگر اقلیتوں کی طرف سے مجبوراً جواب دیا گیا تو بی جے پی حکومت انہیں کچلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے ۔ایسابنہیں ہے کہ ایسے تمام واقعات لاشعوری طور پر معرض وجود میں آتے ہیں بلکہ ان کی پہلے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔آخر مذہبی جلوسوں کے دوران اس طرح کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں جس سے اقلیتوں کی اہانت یا انہیں اشتعال دلانا مقصود ہو ۔’ایودھیا تو لے چکے اب متھراکاشی کی باری ہے‘جیسے نعروں کا مقصد کیاہے؟ کیا ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ عدالتوں پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کے فیصلے صادر کروا لینا بہادری نہیں ہے ۔اسی طرح مذہبی نغموں میں مسلمانوں کو تیمور اور بابر کی نسلیں بتلا کر ان کے سینوں میں ترشول اتارنے کی باتیں کرنا آئین کے منافی نہیں ؟آخر تیمور اور بابر کو ہندوستان میں داخل ہی کیوں ہونے دیاگیا؟ کیا اُس وقت ہندوستان میں ہندوریاستیں قائم نہیں تھیں ؟یاپھر ہندوستان کے مسلمانوں نے تیمور اور بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی ؟ یاپھر ہندوستان کے موجودہ تمام مسلمان تیمور اور بابر کی نسل سے ہیں؟ان نعروں کا واحد مقصد ہندوستان کے امن کو برباد کرنا ہے ،جس کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے ۔پولیس ان جلوسوں کے ساتھ ہوتی ہے مگر کبھی ان کی طرف سے ایسے غلیظ نعروں اور مذہبی نغموں پر اعتراض نہیں کیاگیا اور نہ کبھی پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہمت دکھلائی ۔خیر!ہمیں پولیس سے اس کی توقع بھی نہیں ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے شخص یتی نرسنگھانند کو ابھی تک پولیس گرفتار نہیں کرسکی تو ہم اس سے مزید کیا توقع کرسکتے ہیں ۔اس کے برخلاف جن مسلمانوں نے یتی نرسنگھانند کی دریدہ دہنی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی پولیس نے ان پر مقدمے درج کئے اور گرفتار بھی کیا۔ آیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اب ہندوستان کا سیکولر کردار زندہ نہیں ہے ؟
بہرائچ سمیت ہندوستان میں جہاں بھی اس طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اس میں ہمیشہ انتظامیہ کا رویہ مشکوک رہا ہے، کیونکہ موجودہ انتظامیہ میں جانب داری درآئی ہے اور وہ فقط ایک طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔اگر یہ انتظامیہ کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو ہندوستان میں امن کو شدید نقصان پہونچے گا۔اقلیتی طبقے کو دبانے اور کچلنے کے لئے شرپسندوں کو اس قدر چھوٹ دینا ملک کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہے ۔کل یہی شرپسند حکومت اور انتظامیہ کے لئے مسائل پیدا کریں گے اور عدم اتفاق کی صورت میں بدامنی جنم لے گی ۔یہی طبقہ سب سے پہلے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف بغاوت کرے گا اور سماجی انتشار کو ہوا دے گا۔اس لئے بہتر ہوگا کہ حکومت کی طرز پر انتظامیہ جانب داری کا مظاہرہ نہ کرے ۔انتظامیہ عوام کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے حکومت کی خدمت کے لئے نہیں! اگر ہندوستان میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ جانب داری اور تعصب سے پاک ہو جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے، لیکن کیا یہ اب ممکن ہے ؟
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔